Hazrat Bari Imaam Rehmatullah Alehi (حضرت امام بری رحمتہ اللہ علیہ)
سر زمین پاکستان اس لحاظ سے بڑی خوش نصیب ہے کہ یہاں اللہ تبارک و تعالی کے مقبول و منظور بندوں نے، کئی اولیاء کرام نے قیام فرمایا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بزرگان دین اور اولیائے کوام کا کردار نہ صرف برصغیر پاک و ہند میں بلکہ پورے عالم اسلام میں قابل تحسین رہا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسلام کی تبلیغ میں جہاں اس کے اعلی اصولوں اور لاثانی ضابطہ حیات کا حصہ ہے وہاں بزرگان دین کی جد و جہد اور روحانی کمالات کا بھی بڑا کردار ہے ۔
سلسلہ قادریہ کے عظیم المرتبت بزرگ حضرت سیّد شاہ عبداللطیف المشہدی کاظمی المعروف بری امام ؒ سرکار برصغیر پاک و ہند کے ان اولیاءکرام اور صوفیاءکرام میں شامل ہیں جنہوں نے مغل بادشاہ جہانگیر کے عہد میں اس ملک کے مختلف اطراف میں نور اسلام پھیلانے کیلئے انتھک جد و جہد کی۔
حضرت سید شاہ عبدالطیف کاظمی ؒ 1026 ہجری بمطابق ؒ1617ءمیں تحصیل چکوال ضلع جہلم کے علاقے چولی کرسال میں پیدا ہوئے ۔آپؒ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے ۔ آپ سادات کے ایک مایہ ناز گھرانے کے چشم و چراغ تھے ۔ آپ کا شجرہ نسب حضرت امام موسی کاظم ؒ سے ہوتے ہوئے حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے ۔ حضرت امام موسی کاظم کی اولاد ہونے کے ناطے سے آپ کو کاظمی سید کہا جاتا ہے ۔ آپ کے والد گرامی کا اسم مبارک سید سخی محمودؒ بادشاہ کاظمی اور والدہ ماجدہ کا نام سیدہ غلام فاطمہ کاظمی تھا۔ آپ کے والد گرامی بھی ایک ولی تھے۔
آپؒ ابھی دس بارہ سال ہی کے تھے کہ آپ کے والد ماجد حضرت سیّد محمود شاہ ؒ موضع کرسال ضلع جہلم سے بعض وجوہات کی بناء پر ہجرت کرکے موضع باغ کلاں (موجودہ اسلام آباد) آگئے اور یہاں آکر حسب سابق کھیتی باڑی شروع کردی۔ شاہ عبدالطیف ؒ نے کافی عرصہ گلہ بانی بھی کی۔ آپ ؒ نے ابتدائی علوم ظاہر و باطن اپنے والد بزرگوار سے حاصل کئے ۔ سید محمود بادشاہ جو کہ نجف اشرف سے فارغ التحصیل تھے نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑ ی تھی۔ پھر آپ ؒ کو غورغشتی بھیج دیا گیا جو اس زمانے میں علم کا بڑا مشہور مرکز تھا ۔ یہاں آپؒ نے حدیث ، منطق ، فقہ ، ریاضی ، علم الکلام ، علم ادب، علم معانی اور علم طب حاصل کئے۔ یہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد آپ ؒ کشمیر، بدخشاں مشہد مقدس ، نجفِ اشرف ، کربلائے معلی ، بغداد ، بخارا ،مصر ، دمشق اوردوسرے اسلامی ممالک میں تشریف لے گئے اور وہاں موجود جید علماءاور اولیاء سے مزید دینی علوم اور روحانی فیوض حاصل کئے ۔ اس کے بعد آپ مدینہ منورہ میں روضۂ رسول ﷺ پر حاضری اور مکہ معظمہ سے حجِ بیت اﷲ کے بعد بارہ سال کے طویل سفر کرکے واپس تشریف لائے۔
جب آپ سید کسران میں واپس آئے تو آپ کی کشف و کرامات کا تذکرہ ہر طرف ہونے لگا جس کی وجہ سے آپ کی شہرت ہر سو پھیل گئی۔ لوگ دور دراز علاقوں سے سید عبدالطیف کاظمیؒ کی خدمت اقدس میں حاضری دیتے اور آپ کی تعلیم و تبلیغ ، و عظ و نصیحت اور پند و نصائح سے فیض یاب ہوتے ۔ کچھ عرصہ یہاں گزارنے کے بعد آپؒ نے اس وقت کے ضلع راولپنڈی کے شمالی علاقے کا رخ کیا اور باغ کلاں (موجودہ آبپارہ مارکیٹ اسلام آباد) میں اقامت پذیر ہوئے ۔باغ کلاں کے باشندوں نے عزت و احترام کے ساتھ آپ کا خیر مقدم کیا اور کچھ اراضی بطور نذرانہ عقیدت پیش کی۔
سید شاہ عبدالطیف کاظمیؒ نے کچھ عرصہ یہاں قیام کیا اور تبلیغ دین میں مصروف رہے یہاں بسنے والے سب لوگ آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے۔ یہاں پر آپ سے کئی کرامات ظاہر ہوئیں ۔ ان ہی دنوں کا واقعہ ہے کہ ایک روز آپ عبادت الہی میں مشغول تھے، توجہ کے ارتکاز کی وجہ سے آپ کو پتہ ہی نہ چل سکا کہ کس وقت آپ کے مویشی زمیندار کے کھیت میں گھس گئے اور انہوں نے ساری فصل تباہ کر دی ۔ فصل کا مالک شکایت لے کر آپ کے والد بزرگوار سید محمود شاہ ؒ کے پاس آیا ۔ آپ کے والد زمیندار کے ہمراہ آپ کے پاس آئے اور سرزنش کی کہ آپ کی بے توجہی کی وجہ سے زمیندار کی فصل برباد ہوگئی ہے۔ اس پر تھوڑی دیر آپ خاموش رہے ۔ آپ کے والد نے انہیں مزید ڈانٹا۔ جب آپ کے والد نے اچھی طرح سرزنش کرنے کے بعد خاموشی اختیارکی تو آپ نے بڑے سکون کے ساتھ آہستہ سے سر اوپر اٹھایا اور نہایت ٹھہرے ہوئے انداز میں گویا ہوئے ۔
ابا جی….! ذرا فصل کی طرف تو دیکھئے ، جونہی آپ کے والد محترم نے فصل کی طرف دیکھا وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ چند لمحے پہلے جو فصل تہس نہس تھی اب ایک سر سبز و شادات کھیت کی صورت میں لہلہاتی ہوئی نظر آ رہی تھی ۔ یہ دیکھنا تھا کہ زمیندار کی حالت عجب ہوگئی وہ آپ کے قدموں میں گر کر گڑگڑا کر معافی مانگنے لگا ۔
حضرت سید شاہ عبدالطیف کاظمیؒ ، حضرت حیات المیر ؒ سے بیعت تھے جو غوث اعظم کے پوتے تھے ، اور ان کا سلسلہ طریقت قادریہ تھا ، جب تک سخی حیات المیر حیات رہے یہ ان کی صحبت میں رہے ۔ انہیں بری امام کا لقب ان کے مرشد حضرت حیات المیر ؒ ہی نے عطاءکیا تھا ۔
بری امام کالفظی مطلب ہے ساری زمین کا رہبر۔ آپ کے پیر و مرشد حضرت حیات المیر ؒ نے آپ کو جو لقب عطا کیا آپ اپنی ساری زندگی اس لقب کی عملی تفسیر بنے رہے ۔خطہ پوٹھوہار کی اس بزرگ ہستی نے اسلام کی تعلیمات کے فروغ اور عوام الناس کی اصلاح اور خدمت کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔
حضرت بری امام سرکاری ؒ نے علوم ظاہری اور باطنی حاصل کرنے اور روحانی منازل طے کرنے کے بعد ضلع ہزارہ میں قیام کیا۔ آپ نے سید محمد کی دختر نیک اختر بی بی دامن خاتون سے نکاح کیا۔ آپ کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جو بہت چھوٹی عمر میں فوت ہو گئی۔ کچھ عرصہ بعد آپ کی زوجہ محترمہ بھی دنیا سے رخصت ہوگئیں۔حضرت بری امام ؒ کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ آپ ؒ کے چار طالب علم آپؒ کے جانشین ہوئے۔ ان میں حضرت مٹھا شاہ ؒ ، حضرت دھنگ شاہؒ ، حضرت شاہ حسین ؒاور حضرت عنایت شاہؒ شامل ہیں۔
کہتے ہیں کہ نور پور شاہاں کے قریب ایک مقام ہے جس کا نام ، لوئے دندی ، ہے یہاں بیٹھ کر حضرت بری امام ؒ اکثر عبادت الہی میں مصروف رہے جب آپ عبادت میں مصروف ہوتے تو ایک جن آ کر آپ کو پریشان کرنے لگا اور آپ کی عباد ت میں خلل ڈالنے لگا۔ جب وہ جن اپنی شرارتوں سے کسی صورت باز نہ آیا تو آپ نے اس سے نجات حاصل کرنے کیلئے دعا کی۔ جن وہیں پتھر بن گیا۔ یہ نشانی ، لوئے دندی ، کے مقام پر آج بھی موجود ہے اور ملک بھر سے ہزاروں لوگ حضرت امام ؒ کی یہ کرامت دیکھنے نور پور شاہاں جاتے ہیں اور اس مقام کی زیارت کرتے ہیں جہاں بیٹھ کر آپ عبادت کیا کرتے تھے ۔
حضرت بری امامؒ جن دنوں ندی نیلاں میں چلہ کشی کر رہے تھے اتنے کمزور ہو چکے تھے کہ کچھ کھا پی نہیں سکتے تھے صرف دودھ پیا کرتے تھے ، گوجر قوم کا ایک عقیدت مند روزانہ آپ کو دودھ دینے آتا تھا جس بھینس کا دودھ وہ گوجر آپ کے پاس لاتا وہ چند دنوں میں مر جاتی ہے ، گوجر دھن کا پکا تھا اپنی زبان سے یہ بات بری امام ؒ کو نہیں بتائی آخر کار ایک ایک کرکے تمام بھینسیں ختم ہوئیں تو اگلے روز دودھ کی خاطر تمام گاؤں میں پھرا مگر ہر طرف سے مایوس ہوا چنانچہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی داستان سنائی۔
آپ مسکرائے اور فرمایا جاؤ ندی کے کنارے چلتے جاؤ اور اپنی بھینسوں کے نام پکارتے جاؤ سب تمہارے پیچھے چلی آئی گی مگر خیال رکھنا کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا چنانچہ اس گوجر نے ایسا ہی کیا جب آخری بھینس کا نام لیا جو کہ ندی سے نکل رہی تھی تو گوجر نے پیچھے موڑ کر دیکھ لیا بھینس اسی جگہ پتھر کی بن گئی۔ گوجر پہلے تو پریشان ہوا مگر باقی بھینسوں کو دیکھ کر خوشی خوشی گھر چلا آیا ۔
ایک روز آپ ؒ نور پور شاہاں کے جنگل میں ایک سوکھے درخت کے نیچے عبادت ِالہی میں مصروف تھے کہ غیر مسلموں کا ایک گرہ وسیع سازو سامان سے لداپھندا آپ کے قریب سے گزرا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہم اپنے گناہوں کو دھونے کیلئے دریا میں نہانے کیلئے جا رہے ہیں ۔
حضرت بری امام ؒ نے فرمایا کہ انسانوں کے گناہ دریاؤ میں نہانے سے نہیں دھلتے بلکہ یہ گناہ عبادت الہی اور اعمال صالح سے جھڑتے ہیں۔
اس پر ان میں سے ایک آدمی نے کہا کہ اگر آپ کی بات درست ہوتی تو آپ جو یہاں سالہا سال سے عبادت الہی میں مصروف ہیں اس کا کچھ تو اثر ظاہر ہوتا۔ کم از کم اتنا ہی ہو جاتا کہ جس درخت کے نیچے بیٹھ کر آپ عبادت کر رہے ہیں وہی سر سبز و شاداب ہو جاتا تاکہ آپ سکون سے عبادت تو کر سکتے ۔ بارش دھوپ اور دوسری موسمی سختیوں سے آپ عبادت کرتے ہوئے محفوظ رہتے ۔
یہ بات سن کر حضرت بری امام ؒ نے فرمایا اس کے قبضہ قدرت میں تو سب کچھ ہے۔ ہم نے اس سے کچھ مانگا ہی نہیں۔ اس کے بعد آپ نے درخت کی طرف رخ کرکے دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دیئے اور دیکھتے ہی دیکھتے درخت سر سبز و شاداب ہوگیا ۔ ان لوگوں نے جب یہ دیکھا تو اس قدر متاثر ہوئے کہ اسی وقت سارا گروہ آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہو کر آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگیا۔
سید عبدالطیف کاظمی قادری ایک بار پتھر پر بیٹھے اللہ کا ذکر کر رہے تھے کہ اس علاقے سے بادشاہ وقت اورنگزیب عالمگیر کا اپنی فوج کے ساتھ گزر ہوا۔ رات ہونے کی وجہ سےاورنگزیب عالمگیر نے فوج کو پڑاؤ کا حکم دیا اور کھانے کی تیاری کا بھی حکم دیا۔ جب کھانا تیار ہوا تواورنگزیب عالمگیر نے حکم دیا کہ علاقے کے عوام کو بھی کھانے میں شرکت کی دعوت دی جائے۔ۓ
لوگ کھانے کے لیے آ گئے اور کھانا شروع کر دیا۔ اس اثنا میں چند سپاہی اورنگزیب عالمگیر کے پاس حاضر ہوئے اور شکایت لگاتے ہوئے کہا کہ ایک شخص نے آپ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ سن کر اورنگزیب عالمگیر برہم ہوا اور بولا کہ جاؤ اور دوبارہ انہیں ہمارا حکم سناؤ سپاہی چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد جب لوٹے تو انہوں نے وہی جواب دیاجسے سن کر اورنگزیب عالمگیر نے سپاہیوں سے کہا کہ ہم خود جا کر اس شخص کو ملنا چاہتے ہیں۔ جب اورنگزیب عالمگیر سید عبدالطیف کاظمی قادری کےپاس پہنچا تو تحکمانا انداز میں سید عبدالطیف کاظمی قادری سے مخاطب ہوا :
‘‘کیا وہ تم ہی ہوجس نے ہمارا حکم ماننے سے انکار کیا’’سید عبدالطیف کاظمی قادری نے جواب دیا
‘‘ہاں وہ میں ہی ہوں’’….اس پر اورنگزیب عالمگیر بولا :
‘‘کیا تم نہیں جانتے کہ ہم بادشاہ وقت ہیں اور تم ہماری سلطنت میں موجود ہو’’….
سید عبدالطیف کاظمی قادری نے جواب دیا ‘‘تم جو بھی ہو سلطنت صرف اللہ کی ہے اور اگر تمھیں سلطنت دیکھنے کا بہت شوق ہے تو ہمارے ساتھ اس پتھر پر بیٹھو’’
جب اورنگزیب عالمگیر اس پتھر پر بیٹھا تو اسے اپنے چاروں طرف ہیرے جواہرات سے بنا دربار نظر آیا اور وہ پتھر جس پرسید عبدالطیف کاظمی قادری بیٹھے تھے وہ ایک بہت خوبصورت تخت کی صورت میں نظر آیا۔
اس مشاہدے کے بعد اورنگزیب عالمگیر سید عبدالطیف کاظمی قادری سےبولا‘‘مجھے معاف کیجئے گامیں آپ کو نہیں پہچان پایا تھا اس لیے آپ سے گستاخی کر بیٹھا تھا ’’
یہ سن کرسید عبدالطیف کاظمی قادری رحمۃ اللہ علیہ نے اورنگزیب عالمگیر کو معاف کیا اوراس کے حق میں دعا بھی فرمائی ۔
ایک دفعہ مغل شہنشاہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ بیش قیمت تحفے تحائف اور نذرانے پیش کئے ۔ لیکن آپ نے انہیں قبول نہیں فرمایا ۔ جس سے بادشاہ کو رنج ہوا ۔ آپ ؒ نے اس کے دل کی کیفیت کو جان لیا اور فرمایا :
‘‘جس ذات نے تمہارے لئے مال و دولت کے حصول کے ظاہری اسباب بنائے ہیں اس نے اس فقیر کے لئے اس سے بہتر باطنی اسباب کا بندوبست کیاہوا ہے ۔
آپ نے اورنگ زیب سے فرمایا
‘‘اے بادشاہ ! اس شہنشاہ کے سامنے سر جھکا جو سب بادشاہوں کا بادشاہ ہے ۔ جس کے سامنے بڑے بڑے شہنشاہوں کے سر خم ہوجاتے ہیں’’ ۔
مشہور ہے کہ ایک مرتبہ جب بری امام ؒ ؒ کہیں سفر پر جا رہے تھے اور آپ کے مرید خاص مٹھا شاہ بھی اس سفر میں آپ کے ہمراہ تھے آپ نور پور شاہاں میں باغ کلاں کے گاؤں کے قریب سے گزرے، ابھی آپ نے چار کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ اچانک جنگل سے چند ڈاکو نکلے اور انہوں نے لوٹنے کی غرض سے آپ کا راستہ روک لیا ۔ حضرت بری امام ذرا بھی فکر مند نہیں ہوئے اور ڈاکوؤں کے سردار کی اصلاح کو دعوت دیتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو تنگ کرنا چھوڑدے۔ اس نورانی صورت بزرگ کی یہ باتیں سن کر ڈاکوؤں کے سردار پر ہیبت طاری ہوئی۔ اس نے حضرت سے کچھ دیر تک چند سوالات کیے اور پھر جرائم سے ہمیشہ کیلئے تائب ہوکر آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی ۔
آپ نے فرمایا ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہاں روشنیوں کا عظیم شہر آباد ہوگا ۔ حضرت بری امام ؒ نے آج سے ساڑھے تین سو سال پہلے ارشاد فرمایا تھا کہ نور پور پوٹھوہار ( اسلام آباد ) کا یہ خطہ ایک دن ناصرف فرزندان توحید کا مرکز بلکہ عالی شان چمکتا دمکتا شہر بن جائے گا اور اس کا چرچا پوری دنیا میں ہوگا۔ حضرت بری امام ؒ کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور یہاں اسلام آباد کے نام سے ایک شہر بن گیا ۔
حضرت شاہ عبدالطیف کاظمی امام بریؒ 1117ھ بمطابق 1706ءمیں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ آپ کا مزار نور پور شاہاں اسلام آباد میں پہلے پہل مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے تعمیر کرایا جس میں وقت کے ساتھ ساتھ تعمیر اور تبدیلیاں ہوتی رہیں۔
آج آپ کا مزار مبارک نور پور شاہاں شریف اسلام آباد میں عقیدت مندوں کیلئے مرجع خلائق ہے ۔
عام دنوں میں بھی آپؒ کے مزار شریف پر رونق ہوتی ہے روزانہ لنگر تقسیم کیا جاتا ہے لیکن عرس کے دنوں میں تو تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگ جوق در جوق آتے ہیں اور فیوض و برکات سے جھولیا ں بھر کر لوٹتے ہیں لوگ نہ صرف دربار پر حاضری دیتے ہیں بلکہ دشوار گزار پہاڑی رستے سے اس غار کی بھی زیارت کرتے ہیں جہاں آپ ؒ نے عبادت و چلہ کشی کی جسے لوئے دندی کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ حضرت بری امام سرکارؒ کا سالانہ عرس مبارک ہر سال محکمہ اوقاف کے زیرِ اہتمام موسم بہار میں اپریل کے آخری یا مئی کی پہلی اتوار سے شروع ہوتا ہے۔ پانچ روز تک عرس شریف کی تقریبات جاری رہتی ہیں۔ پاکستان بھر سے لوگ قافلوں کی صورت میں حاضری دیتے ہیں۔ جمعرات بعد نماز عصر پر عرس شریف کی تقریبات اختتام پذیر ہوتی ہیں۔
This comment has been removed by the author.
ReplyDeleteV.nice
ReplyDeleteThis comment has been removed by the author.
ReplyDeletewaao
ReplyDelete