LIFE (ZINDAGI),LESSON,KNOWLEDGE AND INFORMATION


ایک محفل میں دوران تقریب کچھ باتیں ہوئیں
ایک صاحب کہنے لگے، آپ نے اتنی باتیں کرلیں ذرا یہ تو بتایئے کہ نماز میں دو سجدے کیوں ہیں؟
میں نے کہا : مجھے نہیں معلوم۔
کہنے لگے: یہ نہیں معلوم تو پھر آپ کو معلوم ہی کیا ہے؟ اتنی دیر سے آپ کی باتیں سن کر محسوس ہورہا تھا کہ آپ علمی آدمی ہیں لیکن آپ تو صفر نکلے۔
میں نے کہا: جناب! میں صفر نکلا نہیں، میں صفر ہوں! میں نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ مجھے بہت کچھ آتا ہے۔
کہنے لگے: اب سنیئے کہ نماز میں دو سجدے کیوں ہیں! ایک سجدہ اسلیئے کہ جب اللہ نے تمام فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ حضرت آدم کو سجدہ کریں تو تمام فرشتے سجدے میں چلے گئے تھے۔ جب فرشتے سجدے سے اٹھے اور دیکھا کہ سجدہ نہ کرنے پر شیطان کو تا قیامت وعید ہوئی تو انہوں نے ایک اور سجدہ شکرانہ ادا کیا کہ ہم حکم عدولی والوں میں نہ تھے۔
میں نے کہا: بہت شکریہ جناب! آپ نے میری معلومات میں اضافہ کیا، میں اس کی تحقیق میں نہیں جاؤنگا کہ آیا یہ بات حسب واقعہ ہے بھی یا نہیں، لیکن ایک سوال میری طرف سے بھی۔ اگر کسی شخص سے نماز میں ایک سجدہ چھوٹ جائے تو کیا اس کی نماز ہوجائے گی؟
کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم۔
میں نے پوچھا: جناب! کیا ہمیں پہلے وہ معلومات حاصل نہ کرنی چاہیئیں جن سے زندگی میں اکثر و بیشتر پالا پڑتا ہو یا پڑنے کی امید ہو۔؟
اس پر وہ بحث کرنے لگے۔
بہرحال ان صاحب نے تو وہ بات نہ مانی لیکن میں یہ سمجھ چکا تھا کہ لوگوں کے دماغ میں "علمیت" کا معیار کیا ہے؟
یقین کیجئے میں نے مسجدوں کی دیواروں ہر قران و حدیث کی بجائے کفر و گستاخی کے فتوے آویزاں دیکھے۔
میں نے کارپینٹر اور مستری کے درمیان "علم غیب" کے مسئلے پر بحث ہوتے دیکھی ہے۔
میں نے اپنی آنکھوں سے ایسے لوگوں کو مسلکی ویڈیوز شیئر کرتے دیکھا ہے جن کو غسل کے فرائض تک نہیں معلوم۔
حدیث میں آتا ہے:
"اختلاف العلماء رحمۃ"
علماء کا اختلاف رحمت ہے۔
مجھے لگتا ہے یہ حدیث مجھے اپنے اندر چھپے ایک اور معانی بتا رہی ہے اور وہ ہے:
"اختلاف الجہلاء زحمۃ"
جاہلوں کا اختلاف زحمت ہے۔
کیونکہ علم والے جب اختلاف کرتے ہیں تو غور و فکر کے دروازے کھلتے ہیں اور دلائل کے انبار لگتے ہیں
جبکہ جاہل جب اختلاف کرتے ہیں تو بحث و تکرار کے در وا ہوتے ہیں اور گالیوں کے ڈھیر لگتے ہیں۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

بہت عرصہ پہلے میرے علاقے میں ایک انتہائی ماڈرن قسم کی بیوہ عورت وہاں آ کر رہنے لگی اس کے دو بچے بھی تھے- ہم نے دیکھا کہ ایک عجیب و غریب کردار آکر ہمارے درمیان آباد ہو گیا ہے-اور اس کا انداز زیست ہم سے ملتا جلتا نہیں ہے ایک تو وہ انتہائی اعلا درجے کے خوبصورت اور باریک کپڑے پہنتی تھی،پھر اس کی یہ خرابی تھی کہ وہ بڑی خوبصورت تھی تیسری اس میں خرابی یہ تھی کہ اس کے گھر کے آگے سے گزرو تو خوشبو کی لپٹیں آتیں تھیں-

اس کے جو دو بچے تھے وہ گھر سے باہر بھاگتے پھرتے تھے، اور کھانا گھر پر نہیں کھاتے تھے-لوگوں کے گھروں میں چلے جاتے اور جن گھروں میں جاتے وہیں سے کھا پی لیتے-یعنی گھر کی زندگی سے ان بچوں کی زندگی کچھ کٹ آف تھی-
اس خاتون کو کچھ عجیب و غریب قسم کے مرد بھی ملنے آتے تھے-گھر کی گاڑی کا نمبر تو روز دیکھ دیکھ کر آپ جان جاتے ہیں-لیکن اس کے گھر آئے روز مختلف نمبروں والی گاڑیاں آتیں تھیں-ظاہر ہے اس صورتحال میں ہم جیسے بھلے آدمی اس سے کوئی اچھا نتیجہ نہیں اخذ کر سکتے-

اس کے بارے میں ہمارا ایسا ہی رویہ تھا،جیسا آپ کو جب میں یہ کہانی سنا رہا ہوں،تو آپ کے دل میں لا محالہ اس جیسے ہی خیالات آتے ہو نگے-ہمارے گھروں میں آپس میں چہ میگوئیاں ہوتی تھیں کہ یہ کون آ کر ہمارے محلے میں آباد ہو گئی ہے-

میں کھڑکی سے اسے جب بھی دیکھتا،وہ جاسوسی ناول پڑھتی رہتی تھی-کوئی کام نہیں کرتی تھی-اسے کسی چولہے چوکے کا کوئی خیال نہ تھا-بچوں کو بھی کئے بار باہر نکل جانے کو کہتی تھی-

ایک روز وہ سبزی کی دکان پر گر گئی،لوگوں نے اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے وینٹے مارے تو اسے ہوش آیا اور وہ گھر گئی-تین دن کے بعد وہ فوت ہوگئی،حالانکہ اچھی صحت مند دکھائی پڑتی تھی-جو بندے اس کے ہاں آتے تھے-انھوں نے ہی اس کے کفن دفن کا سامان کیا-

بعد میں پتا چلا کے ان کے ہاں آنے والا ایک بندہ ان کا فیملی ڈاکٹر تھا-اس عورت کو ایک ایسی بیماری تھی جس کا کوئی علاج نہیں تھا-اس کو کینسر کی ایسی خوفناک صورت لاحق تھی skin وغیرہ کی کہ اس کے بدن سے بدبو بھی آتی رہتی تھی-جس پر زخم ایسے تھے اور اسے خوشبو کے لئے اسپرے کرنا پڑتا تھا،تا کہ کسی قریب کھڑے کو تکلیف نہ ہو-اس کا لباس اس لئے ہلکا ہوتا تھا اور غالباً ایسا تھا جو بدن کو نہ چُبھے..دوسرا اس کے گھر آنے والا وکیل تھا،جو اس کے حقوق کی نگہبانی کرتا تھا-تیسرا اس کے خاوند کا چھوٹا بھائی تھا،جو اپنی بھابھی کو ملنے آتا تھا-

ہم نے ایسے ہی اس کے بارے میں طرح طرح کے اندازے لگا لیے اور نتائج اخذ کر لیے اور اس نیک پاکدامن عورت کو جب دورہ پڑتا تھا،تو وہ بچوں کو دھکے مار کر گھر سے نکال دیتی تھی اور تڑپنے کے لیے وہ اپنے دروازے بند کر لیتی تھی-

میرا یہ سب کچھ عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم تنقید اور نقص نکالنے کا کام الله پر چھوڑ دیں وہ جانے اور اس کا کام جانے-ہم الله کا بوجھ اپنے کندھوں پر نہ اٹھائیں،کیونکہ اس کا بوجھ اٹھانے سے آدمی سارے کا سارا "چبہ" ہو جاتا ہے،کمزور ہو جاتا ہے،مر جاتا ہے-
الله تعالیٰ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے.

آمین





Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

“.. صوفی کسے کہتے ہیں ..” (SUFI KISE KEHTE HAIN)

Charna Island : جزیرہ چرنا‎

Trip To KUND MALIR And NATIONAL HINGOL PARK